Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حال دل

ماہنامہ عبقری - جولائی 2015ء

ایڈیٹر کے قلم سے

جو میں نے دیکھا ، سنا اور سوچا

اپنی موت کا انتخاب خود کریں

رب کو‘ پیغمبر کو‘ دین‘ ایمان اور قرآن کے نا ماننے والے اس دنیا میں موجود ہیں موت ایک ایسی حقیت ہے اس کو نہ ماننے والے آج تک نہ سنے نہ دیکھے ۔میرے مزاج میں تحقیق اورتفکر کا شروع سے جذبہ ہے کوئی بھی شخص اس دنیا سے رخصت ہوجائے میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں موت کیسی ہوئی کس حالت میں ہوئی مرا کیسے؟ اور کس طرح؟ ہمارے ایک دوست جن کو ہم ملک صاحب کہتے ہیں کے والد جو اس وقت پچانوے سال سے زیادہ کی عمر کے ہیں موصوف بہت درویش باکمال ولی ہیں۔ میں نے ایک دفعہ عرض کیا کوئی پرانا واقعہ یامشاہدہ سنائیے۔ فرمانے لگے ہمارے گاؤں سے آگے دور ایک گاؤں ہے وہاں ایک مشہور چور ہوتا تھا۔ لوگوں کی گائے بھینس بیل اور چیزیں چرانا اس کا فن تھا کئی بار پولیس نے پکڑا ‘سزائیں بھگتیں لیکن چوری سے باز نہیں آتا تھا۔ ایک دفعہ ایک بھینس چوری کرکے آرہا تھا گرمیوں کی راتیں تھیں‘ راستے میں ایک زہریلے سانپ نے ڈسا۔ ہماری بستی کے قریب تھا ‘اسے احساس ہوا کہ سانپ کا زہر کام کرگیا‘ بستی والوں کو زور زور سے آوازیں دینے لگا رات کا وقت تھا‘ ہرطرف سناٹاتھا‘ کچھ لوگ اٹھے پھر اور اٹھے اور سب کو تعارف کروا کر زور زور سے کہہ رہا تھا میں فلاںبستی کا مشہور چور ہوں۔ لوگ حیران! گائے کو اس نے ایک جگہ باندھ دیا اور خود پاؤں پکڑ کر بیٹھا اور لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ مجھے کسی زہریلے سانپ نے ڈسا ہے بس میرا موت کا وقت آگیا ہے‘ میں بچ نہیں سکتا ۔یہ گائے میں فلاں گائوں کےفلاں شخص کی چوری کرکے لایاہوں۔پھر اپنی زندگی کی چوریاں بتانے لگا‘ فلاں چیز فلاں سے چوری کی اور میرے بیٹوں کو میری وصیت کرجانا کہ ان کو یہ چیزیں واپس کریں پھر اپنی گزشتہ زندگی پر توبہ ندامت کرنے لگا اور لوگوں کو گواہ بنانے لگا کہ دیکھو لوگوں میں نے توبہ کی ہےاور کلمہ پڑھا اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ چوہدری جاوید صاحب اپنا واقعہ سنانے لگے کہ اس دور کی بات تھی جب میں راولپنڈی کے ورکشاپی محلے میں رہتا تھا پھر میں نے وہاں سے یہاں کوٹھی بنائی مجھے پیغام ملا کہ تیرے دوست کا آخری وقت ہے اور وہ تجھے یاد کررہا ہے‘ میں اس کے پاس گیا لوگ اکٹھے تھے موت و حیات کی کشمش تھی مجھے دور سے کہنے لگا فلاں کا بیٹا ہے میں نے کہا ہاں اور کہا میں تیرا انتظار کررہا تھا اور میں اللہ سے استغفار کررہا ہوں اور سب کو اور مجھے متوجہ کرکے کہنے لگا کہ میرے کلمے کے گواہ رہنا اور کلمہ پڑھا اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ حالانکہ لوگوں نے آج تک اسے مسجد جاتے نہیں دیکھا تھا۔ منڈی بہاؤالدین کے ساتھ ایک گاؤں ہے۔ میانوال‘ وہاں کے میرے ایک دوست رانا صاحب نے واقعہ سنایا ایک صاحب ساری زندگی ایمان اعمال کی زندگی گزارتے آخری وقت میں مسجد میں بیٹھے اٹھے اور گھر گئے اور کہنے لگے میری طبیعت خراب ہورہی ہے پھر گھر والوں کو کہا کہ میرا ایمان مفصل سنیں ‘ایمان مفصل سنایا۔بس یہ سنایا اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔میری والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا میرے دادا مرحوم حاجی اللہ بخش چغتائی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ جب آخری وقت آیا صبح فجر کی نماز پڑھی ذکر اعمال تلاوت کرتے رہے اور پھر چارپائی پر بیٹھ کر اشراق پڑھی اور پھر وہیں ٹیک لگا کر دعا مانگتے مانگتے آخر ہاتھ گرگئے اور ان کی گردن بھی ڈھلک گئی‘ یوں روح اس دنیا سے چلی گئی۔نانی اماں رحمۃ اللہ علیہا سوسال سے زیادہ عمر میں فروری 2009ء میں فوت ہوئیں۔ میرے پردادا مفتی حاجی فتح محمد چغتائی رحمۃ اللہ علیہ جن کو لوگ عام طور پر حاجی فتح محمد کہتے تھے۔ صبح سب لوگوں سے الوداع کررہے ہیں پڑوسیوں میں ہندو بھی تھے مسلمان بھی‘ موصوف 1933ء میں فوت ہوئے۔ الغرض ہرشخص کو الوداع کررہے تھے اور ساتھ فرمارہے تھے کہ اگر کوئی کمی کوتاہی ہو تو معاف کردینا پھر اپنی قدیمی مسجد میں گئے مسجد کو الوداع کیا‘ لوگ پوچھ رہے تھے کہ حاجی صاحب خیریت تو ہے آپ سب کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ تو فرمانے لگے بس محسوس ہوتا ہے کہ وقت آگیا ہے‘رات کو تہجد کی نماز پڑھی اعمال استغفار کیا اپنے انگوٹھے کپڑے کے ٹکڑے سے خود باندھے ہاتھ پاؤں سیدھے کیے چادر اوڑھی سر دائیں طرف کیا اور دنیا کی زندگی کو الوداع کرکے سوگئے۔میرے گھر کے قریب ایک صاحب نے دکان لگائی‘ بازار کےدوسرے کونے پر ایک اور صاحب نے اسی شعبے کی دکان لگائی۔ ان کو بہت غصہ آیا پہلے تو انہوں نے ان کے تالوں میں ایلفی ڈال دی‘ وہ دکاندار باز نہ آیا تو ان کی دکان کو آگ لگادی‘ موصوف کے مزاج میں حسد‘ تنگ نظری‘ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی دن گزرتے گئے‘ حالات نے فیصلہ کیا جن کی دکان پر ایلفی ڈالی تھی ان کا کاروبار بڑھا ایک سے دو ‘دو سے تین دکانیں ہوگئیں‘ ان کا کاروبار آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوا پھر ایک بھائی مرگیا اس کی بیوی مرگئی گھر میں پریشانی‘ مشکلات‘ بیماریاں‘ لڑائی جھگڑے پھر خود مرگئے اور عجیب موت مرے اور مجھے غسل دینے والے صاحب نے بتایا ان کا چہرہ بہت بھیانک تھا‘ ناک منہ سے خون ‘کانوں سے خون ختم ہی نہیں ہورہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے ساتھ حسد کینہ بغض رکھنا ۔رکھتےرکھتے آخر کار عجیب موت مرگئے۔میں جب ساتویں جماعت پڑھتا تھا تو ایک پرانے ہیڈماسٹر صاحب تھے‘ میرے والد مرحوم رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اور میرے بھائی کو ان کے سپر دکیا ہوا تھا موصوف بہت نیک تجربہ کار ان کی سپردگی کا مقصد پڑھانا کم اور تربیت زیادہ تھی۔وہاں میرے ایک کلاس فیلو تھے ان کے والد کا نام محمد حسین شاہ صاحب تھا ایک دفعہ ان کے بیٹے ملے‘ میں نےپوچھا والد صاحب کیسے ہیں؟ فرمانے لگے وہ تو کئی سال پہلے فوت ہوگئے۔ میں نے کہا موت کی کیفیت ؟فرمانے لگے جمعہ کے دن اٹھے‘ ڈاڑھی کے خد بنوائے‘ ناخن کاٹے اور پھر اپنے جسم کو صاف کیا‘ غسل کیا‘ اور غسل کرنے کے بعد پھر بیٹھے اور تھوڑی ہی دیر میں اللہ کے پاس چلے گئے بس یہ ایسی موت ہوئی میں اتنی اچھی موت پر حیران بھی ہوں۔ مجھے مولانا کلیم صدیقی دامت برکاتہم نے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی موت کا واقعہ سنایا رمضان المبارک کا جمعہ تھاحضرت نے پوچھا آخری جمعہ ہے؟ ساتھیوں نے کہا نہیں حضرت فرمایا نہیں آخری جمعہ ہے‘ صبح اٹھے‘ ڈاڑھی کے خط بنوائے‘ خوب اچھی طرح نہائے‘ اچھا لباس پہنا‘ خوشبو لگائی‘ شیروانی پہنی‘ پھر جمعہ کے دن سورت کہف پڑھی اور پھر سورۂ یٰسین پڑھی اور پھر تھوڑی ہی دیر کے بعد کلمہ پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میرے دوست کے والد غلام محمد صاحب صبح کی نماز پڑھ کر تشریف لائے ہاتھ میں تسبیح تھی گھر کے نظام اور کچھ زندگی کی ضروریات کی باتیں کرتے اسی تسبیح کے ساتھ لیٹے اور اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ موصوف کی ایک بہت بڑی خوبی حلم‘ برداشت‘ صلہ رحمی اپنا حق چھوڑ دیا اور اپنے حق کا کبھی مطالبہ بھی نہ کیا۔ یہ وہ بنیادیں تھیں جس کی وجہ سے تسبیح اور ذکر اور کوئی ایک نماز قضا کیے بغیر اللہ تعالیٰ نے بہترین موت عطا فرمائی۔ لاہور کے ایک مخلص ذوالفقار صاحب کی والدہ نماز پڑھ کر تسبیح پر سورۂ کوثر پڑھ رہی تھیں اور ساتھ میرا درس لگا ہوا تھا وہ سن رہی تھیں بس اسی دوران سرجھکایا اور پھر گرگئیں سورۂ کوثر پڑھتے پڑھتے اللہ کی بارگاہ میں چلی گئیں۔ مرحومہ ساری عمر صبر حوصلے ایمان اور کفایت شعاری کی زندگی گزار کر آخری وقت میں اللہ کا نام لیتے لیتے اس دنیا سےرخصت ہوگئیں۔ بہت حوصلے والی تھیں‘ بہت صبر والی تھیں اور بہت ایمان والی تھیں اکثر میرے پاس آتی رہتی تھیں۔ چوہدری حشمت علی صاحب مالدار تھے‘ سابق پاکستان کے وزیراعظم چوہدری محمدعلی کے قریب ترین رشتے داروں میں سے تھے جس وقت وہ فوت ہوئے کمرے میں سے حیرت انگیز خوشبو نکلی‘ وہ خوشبو میں نے خود سونگھی۔ میں نے ان کے جنازے کو کندھا دیا‘ انوکھی خوشبو جو کہ اس دنیا کی نہیں تھی۔ بہت زیادہ محسوس کی‘ مرنے کے بعد بے شمار لوگوں نے ان کو اتنی اچھی حالت میں دیکھا کہ شاید گمان سے بالاتر۔ اردو بازار لاہور میں کتابوں کی ایک دکان مکتبہ قدوسیہ ہے۔ عمر فاروق صاحب ایک جاننے والے کا واقعہ سنانے لگے‘ ان کی سابقہ زندگی منفرد تھی‘ ایک صاحب نے انہیں مسجد نبوی ﷺ شریف میں نہایت اچھی اور متقیانہ زندگی میں دیکھا‘ حیران ہوئے آپ کی سابقہ زندگی تو کچھ عجیب و غریب تھی جس کو لوگ اچھا نہیں سمجھتےتھے بلکہ لوگ بچ کر نکلنا ہی اچھا سمجھتے تھے یہ تبدیلی کیسے ہوئی؟ ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگے کہ میرے بھائی نے ساری زندگی مساجد کی خدمت‘ مدارس کی خدمت‘ دین کی‘ دین والوں کی‘ حج‘ عمرے‘ نماز‘ تسبیح‘ صدقات خیرات وغیرہ سب کیا۔ پھر وہ بیمار ہوگئے اور بہت عرصہ بیماری کی حالت میں رہے۔ اتنا بیماری کی حالت میں رہے کہ بیماری نے ان کے حوصلے ختم کردئیے۔ ایک دفعہ سب گھر والوں کو اکٹھا کیا کہنے لگے: قرآن پاک لے آئیں‘ قرآن پاک کو کہنے لگے یااللہ تو جانتا ہے میں نے ساری زندگی تیری اور قرآن کی خدمت کی لیکن تو نے مجھے بیمار کیا میں تجھے نہیں مانتا اور تیرے قرآن کو نہیں مانتا یہ بول آخری تھے اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میرے والد صاحب کے ایک لکڑی کے کاریگر تھے جن کو بہت امیر لوگ لکڑی کے کام کیلئے بلاتے تھے کیونکہ موصوف بہت ڈھیلا کام‘ نہایت سست کام اور نہایت مہنگی فیس۔ لیکن والد صاحب ان سے کام کراتے تھے‘ ابتدا میں 1991 میں جب میں نے باقاعدہ پریکٹس شروع کی تو لکڑی کا بہت بڑا کام تقریباً ایک سال تک ہوتا رہا اور وہ میرا کلینک تیار ہوا جو کہ والد صاحب نے اپنی نگرانی میں تیار کرایا اور یہ استاد دن رات اسی پر محنت کرتے رہے اور واقعی شاہکار کام کیا۔ موصوف نماز قرآن تسبیح کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے تھے‘ مجھے پتا چلا کہ بیمار ہیں میں عیادت کرنے گیا‘ جاتے ہی میں نے تعارف کرایا پہچان گئے اور مجھے بار بار کہنے لگے طارق میاں! کہ ہم بس اب مسجد بنائیں گے اور جلد ہی بنائیں گے اور یہ لفظ بار بار کہہ رہے تھے جیسے کہ وہ اپنے حوش
و ہواس میں نہ ہو‘ مجھے پتہ چلا کہ ان کا آخری وقت
نہایت لاجواب‘ اللہ اس کے رسول ﷺ کی یادیں اور یوں اپنی زندگی کے دن پورے کرکے بہترین خاتمہ پاکر اس دنیا سے چلے گئے۔ میں ایک گاؤں چک 47 میں آج سے کوئی 25 سال پہلے گیا‘ ایک صاحب کو دیکھا کہ اس کے دونوں ہونٹ سفید ہوگئے تھے‘ جیسے محسوس ہوتا تھا برص یا پھلبہری کے نشان ہیں‘ بتانے والوں نے بتایا کہ شراب اتنی پیتے ہیں کہ ہونٹ جل گئے ہیں‘ شراب کی کثرت سے آخر بیمار ہوگئے‘ ملتان نشتر ہسپتال میں لایا گیا ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں تھوڑی تھوڑی شراب پینا چاہیے ایک دم نہیں چھوڑنی چاہیے لیکن انہوں نے ایسی توبہ کی‘ کئی ہفتے ہسپتال میں رہے‘ شفایاب نہیں ہورہے تھے‘ آخر کار ایک دن کہنے لگے مجھے مسجد میں لے چلو وضو کیا مسجد کی محراب میں جاکر نماز پڑھنے لگ گئے اور جب سجدے میں گئے وہیں روح پرواز کرگئی۔ میرے پڑوس میں ایک خواجہ صاحب رہتے تھے‘ موصوف بہت غلط عقائد کے مالک تھے‘ لیکن نامعلوم قدرت کو کیا ادا پسند آئی اور قدرت نے ان کو چنا آخری وقت کہنے لگے قرآن پاک لے آئیں قرآن کو دیکھا‘ مسکرائے‘ اور کہنے لگا اللہ پاک میں سابقہ اپنی زندگی اور عقائد سے توبہ کرتا ہوں جو قرآن کی سچی زندگی ہے اسی پر آتا ہوں اور باقاعدہ وصیت کی مجھے فلاں قبرستان میں جس میں سچے لوگ دفن ہیں وہاں دفن کرنا اور یوں زندگی کا آخر بہترین اور لاجواب کرکے چلے گئے۔ قلعہ ڈیرآور بہاولپور کے قریب ہے‘ وہاں کے ایک سخی اور بااثر آدمی قاضی اللہ دتہ صاحب ہیں۔ موصوف صحرا میں میرے ہمسفر ہوتے ہیں‘ کیونکہ بہت بوڑھے ہیں ان کے ساتھ بہت تجربات ہیں۔ اپنے زندگی کے مشاہدات بتانے لگے کہ ایک شخص کا نام مراد حسین تھا‘ لوگ اسے مرادو کہتے تھے دنیا کی ہر علت ہر بری عادت اس کے اندر موجود تھی ایک دن دوستوں کے پاس گیا اور کہنے لگا میں کل مرجاؤں گا۔ اس کے دوسرے دن رمضان کا آخری جمعہ تھا اور کہنے لگا میرے کبوتر بیچ کر کفن دفن کی ترتیب بنادینا۔ نہایت غریب تھا اور اس کا زیادہ وارث بھی نہیں تھے۔ لوگ حیران ہوئے اور مذاق کرنے لگے اور ایک بات خاص تاکید کی دیکھو جب اعلان جنازے کا کرنا تو یہ نہ کہنا کہ مرادو مرگیا ہے کیونکہ کوئی میرے جنازے میں نہیں آئے گا‘ میں قابل نفرت شخص ہوں‘ بس یہ کہہ دینا کسی پردیسی کا جنازہ ہے‘ ہاں نماز جمعہ کے بعد میرا جنازہ پڑھانا تاکہ زیادہ لوگ شامل ہوں۔ واقعی اگلے دن وہ فوت ہوگیا‘ اعلان ہوا کسی پردیسی کا جنازہ ہے کبوتر بیچ کر کفن دفن کی ترتیب بنائی گئی لوگوں کا ہجوم تھا‘ جنازے کے بعد جب پتہ چلا تو لوگ حیران ہوئے اتنی بری زندگی اور اتنی اچھی موت۔میرے عزیز میاں احسن ایک مخلص اور نیک جوان ہیں‘ درد اور خلوص رکھنے والے‘ بتانے لگے میری دکان کے سامنے ایک ہیروئنی پاخانے گندگی میں لت پت موت و حیات کی کشمکش میں تھا‘ ایمرجنسی والوں کو اور دوسرے رفاعی اداروں کوبلایا کہ کسی طرح اس کو اٹھا کر ہسپتال لے جاؤ‘ کسی نے بھی اس کی زندہ لاش کو اٹھانے سے انکار کردیا خیر کسی نہ کسی طرح کرکے اس کو سرگنگارام ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئے‘ میں نے خود اپنے کانوں سے اس کی زبان سے کلمہ سنا۔ وہ یوں زندگی کا ایک ادھورا باب چھوڑ کر بظاہر زندگی کو خراب کرگیا لیکن ابدی اخرت کی اعلیٰ زندگی پاکر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میں بے شمار لوگوں سے ملا جنہوں نے میت کو نہلایا ان سے تجربات مشاہدات پوچھے ایک دفعہ حرم کعبہ میں ہرروز درس دینے والے محترم مکی صاحب نے بھی یہ بات فرمائی کہ جنتی کی جب اس دنیا سے روح نکلتی ہے اس کو وہ لذت نصیب ہوتی ہے جو حالت انزال میں ہوتی ہے۔ یہ بات بڑی انوکھی تھی پھر میں نے غسل دینے والوں سے پوچھا‘ بے شمار نے بتایا کہ میت کی روح جب نکلتی ہے تو کسی کا پاخانہ نکلا ہوا ہوتا ہے کسی کا پیشاب اور بتایا کہ واقعی کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے کپڑے مادہ تولید سے آلودہ ہوتے ہیں اور یہ بات واقعی مکی صاحب کی جو کہ کعبہ شریف میں بیٹھ کر روزانہ درس دیتے ہیں بالکل ٹھیک ہے کہ اللہ پاک اس کو اس لذت میں مبتلا کرکے موت کی تکلیف بھی نہیں دیتے۔ 1965ء کی جنگ میں ایک صوبیدار مجھے اپنا مشاہدہ بتانے لگے کہ ہمارے فوجی جوان جتنے بھی شہید ہوئے چند کو غسل دینے کا مجھے موقع ملا ان کے ساتھ بھی یہی کیفیت انزال کی تھی۔ بھائی عبدالرحمٰن نوناری پرانے بوڑھے بزرگ ساری زندگی ایمان اعمال کی زندگی گزری‘ بیٹے کوملنے آئے بیٹا دعوت کی راہ میں چل رہا تھا‘ رمضان المبارک تھا‘ صبح کی نماز کے بعد بستر کے ساتھ والے شخص سے کہا میرا نام فلاں ہے‘ یہ میرا شناختی کارڈ اور یہ میرا پتہ اور دیکھ میرا وقت آگیا ہے (حالانکہ بالکل صحت یاب تھے) اور میرے کلمہ کا گواہ رہنا‘ پہلا کلمہ دوسرا تیسرا چھ کلمے سنائے ایمان مفصل سنایا اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ قارئین! یہ چند واقعات جن میں صرف اور صرف ایک چیز نظر آتی ہے وہ نظر آتی ہے کہ وہ جس کو اپنی رحمت سے ڈھانک لے کیونکہ خاتمہ بالخیر رحمت سے‘ موت کا کلمہ رحمت سے‘ اور جنت رحمت سے ملے گی۔ ہم کسی کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں وہ اچھا ہے‘ یا برا ہے کتا ہے خنزیر ہے یا انسان ہم کسی کے بارے میں فیصلہ کیا کرسکتے ہیں۔ یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ ایمان اعمال کی زندگی میں بہت اچھی موت آتی ہے اور گھٹیا زندگی پر بہت بری موت آتی ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں ہرچیز کی طاقت اور قدرت ہے میرا رب جس طرح جس کیلئے فیصلے چاہے کردے اس سے کون پوچھ سکتا ہے؟ اس سے کون سوال کرسکتا ہے؟ لہٰذا کسی کو گھٹیا نظر سے نہ دیکھیں بس ڈرتے رہیں اور نیکی کرتے رہیں۔


؎ زاہد نگاہ کم سے کسی رند کو نہ دیکھ
جانے کہ اس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند

نوٹ: قارئین! آپ کے پاس بھی اگر کسی کی موت کے واقعات ہوں تو ہمیں ضرور تحریر کریں منتظر رہیں گے۔

Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 813 reviews.